آنکھیں ہیں مِری تشنۂ دیدارِ مدینہ

قدموں میں بُلا لیجئے

آنکھیں ہیں مِری تشنۂ دیدارِ مدینہ
ہر وقت تصوّر ہیں انوارِ مدینہ
فردوسِ نظر ہیں در و دیوارِ مدینہ
ہے شوق زمیں بوسئ دربارِ مدینہ
لِلّٰہ کرم احمدِ مختارِﷺ مدینہ
قدموں میں بلا لیجئے سرکارِﷺ مدینہ
ہے وادئ بطحا کا جو سودا مِرے سَر میں
ہر دم خلِش ہجر سے ہے درد جگر میں
لاتا ہے جنوں مجھ کو اسی راہ گذر میں
رہتا ہے بہر کیف شب و روز نظر میں
وہ دشتِ عرب اور وہ گلزارِ مدینہ
قدموں میں بلا لیجئے سرکارِﷺ مدینہ
اِک لمحہ کی فرقت بھی نہیں دل کو گوارا
چمکے مِری تقدیر کا اے کاش ستارا
اے شاہِ امم کاش کبھی ہو یہ اشارا
جی بَھر کے کروں گنبدِ خضریٰ کا نظارا
ہر وقت رہوں حاضرِ دربارِ مدینہ
قدموں میں بلا لیجئے سرکارِﷺ مدینہ
اے کاش حقیقت یہ مرا خوابِ حسیں ہو
پوری یہ تمنّا مِری اے سرورِ دیں ہو
دل محوِ زیارت ہو تو سجدے میں جبیں ہو
جب آئے مجھے موت مدینے کی زمیں ہو
ہوں سایہ فگن قبر پہ اشجارِ مدینہ
قدموں میں بلا لیجئے سرکارِﷺ مدینہ
مشتاقِ زیارت کو کبھی دید بھی ہوگی
کیا شامِ اَلَم کی سحرِ عید بھی ہوگی
اس نغمۂ پُر درد کی تائید بھی ہوگی
پوری یہ دلِ زار کی امید بھی ہوگی
سلطانِ عرب، سیدِ ابرارِ مدینہﷺ
قدموں میں بلا لیجئے سرکارِﷺ مدینہ
مانا کہ گنہگار و سیہ کار ہے اختؔر
سرکارِ رضؔا کا سگِ دربار ہے اختؔر
مجبور ہے، محتاج ہے، نادار ہے اختؔر
تھوڑی سی تجلّی کا طلبگار ہے اختؔر
خورشیدِ مبیں، بدرِ ضیا بارِ مدینہ
قدموں میں بلا لیجئے سرکارِﷺ مدینہ

Share this article
Shareable URL
Prev Post

قصۂ کرب و اذیّت کیا کہوں ، کیوں کر کہوں

Next Post

ساقی مجھے وہ بادۂ کیف و سرور دے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Read next