جان و دل یارب ہو قربانِ حبیب کبریا

جان و دل یارب ہو قربانِ حبیب کبریا
اور ہاتھوں میں ہو دامانِ حبیب کبریا

آنکھ میں ہو نور روندانِ حبیب کبریا
سر میں ہو سودا و ارمانِ حبیب کبریا

ان کے فیض نور نے کونین کو روشن کیا
دونوں عالم پر ہے احسانِ حبیب کبریا

زندگی ہو یا مجھے موت آئے دونوں حال میں
میں ہوں یا رب اور بیابانِ حبیب کبریا

کیسا فخرو ناز ہوا پنے مقدر پر اگر
سگ بنائیں مجھ کو دربانِ حبیب کبریا

اک نظر دیکھو جمالِ آفتاب ہاشمی
میری آنکھوں پر ہوا حسان حبیب کبریا

بن کے منگتا ان کے در کے شاہ عالم ہوگئے
اے زہے قسمت گدایانِ حبیب کبریا

نا رہے گور غریباںوقت ہے امداد کا
میں فدا شمع شبستان حبیب کبریا

لٹ رہی ہے ساقیٔ کوثر کے میخانہ میں مے
جوش میں ہیں آج مستانِ حبیب کبریا

صاحب لولاک کے باعث ہوئی ایجاد خلق
ماسوی اللہ سب ہے سامانِ حبیب کبریا

راہ حق میں دیکے سر قربان جاناں ہوگئے
کیوں نہ ہوں زندہ شہیدانِ حبیب کبریا

بٹتا ہے کونین مین باڑا اسی سرکار کا
ہیں زمین و آسماں خوانِ حبیب کبریا

عہد رب نے روز میثاق انبیا سے لے لیا
سر پہ لیں پھر کیوں نہ فرمانِ حبیب کبریا

کچھ نشاں پایا نہ اب تک مہرومہ چکر میں ہیں
اس قدر اونچا ہے ایوانِ حبیب کبریا

اپنی امت میں کیا اپنی جماعت میں لیا
تجھ پہ جاں قرباں احسانِ حبیب کبریا

کون ہے جو ان کے خو ان فضل سے محروم ہے
ہیں خلیل حق بھی مہما ن حبیب کبریا

جس کے بلبل ہیں ابو بکر وعمر، عثمان و علی
رشک جنت ہے وہ بستان حبیب کبریا

غار تیرہ میں جو کاٹا سانپ نے پروانہ کی
آفریں اے جاں نثارانِ حبیب کبریا

خواب مولیٰ پر نماز عصر کو قرباں کیا
ایسے ہوتے ہیں فدایانِ حبیب کبریا

ہم سیہ کاروں کی بخشش کی کوئی صورت نہیں
جز ترے اےچشم گریانِ حبیب کبریا

عقل عالم کی رسائی ان کے رتبے تک محال
ہاں خدا سے پوچھیےشانِ حبیب کبریا

تجھ سے کب ممکن ہے مدحت اے جمیلِ قادری
بس خدا خود ہے ثناخوانِ حبیب ِ کبریا

فیضِ مرشد ہے جمیل قادری تم پر کہ سب
تم کو کہتے ہیں ثنا خوانِ حبیب کبریا

قبالۂ بخشش

Share this article
Shareable URL
Prev Post

کون ہے وہ جو لکھے رتبۂ اعلیٰ ان کا

Next Post

کسی کا نہ کوئی جہاں یار ہوگا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Read next