جہاں جاؤں وہاں نور ہدایت ہو تو کیا کہنا

جہاں جاؤں وہاں نور ہدایت ہو تو کیا کہنا
تصور میں رخ پاک رسالت ہو تو کیا کہنا


گھٹا چھائی فضا ٹھنڈی، ہوا محو نوا سنجی
اب ایسے میں اگر ان کی زیارت ہو تو کیا کہنا


مہک اٹھے ہیں میرے بوستان دل کے گل بوٹے
مرے سرکارﷺ آنے کی عنایت ہو تو کیا کہنا


یہاں عقدہ کشائی ہے وہاں رمز آشنائی ہے
یہ جلوت ہو تو کیا کہنا وہ خلوت ہو تو کیا کہنا


وہی دل ہاں وہی یعنی اسیر کاکل مشکیں
مرے آقاﷺ ترا دارالحکومت ہو تو کیا کہنا


نہ آئے یاد کچھ بھی ماسوائے گنبد خضریٰ
مجھے سارے جہاں سے ایسی غفلت ہو تو کیا کہنا


سبق دیتی ہے اے اخؔتر یہی شانِ اُویسانہ
شہید نرگس رعنائے فرقت ہو تو کیا کہنا

Share this article
Shareable URL
Prev Post

تخت شاہی نہ سیم و گہر چاہیے

Next Post

اللہ رے تیرے در و دیوار مدینہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Read next