دامنِ آقا کی وسعت اور امانوں پر نثار

دامنِ آقا کی وسعت اور امانوں پر نثار
گیسوئے جاناں کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں پر نثار

رحمۃ للعلمیں تیری عطاوں پر نثار
حسنِ مطلع جانِ عالم کی صفاتوں پر نثار

اے شفیعِ مرضِ عصیاں اے طبیبِ جسمِ ما
اے حبیبِ ہر جہاں تیری  شفاؤں پر نثار

قلبِ یثرب کو بنائیں آؤ ہم  طیبہ نگر
ذرّئے نعلین لے کر ہو کے تلوں پر نثار

خاکِ طیبہ میں شفا تو آبِ طیبہ ہے دوا
خطۂ سرکار کے رنگین جلووں پر نثار

گھومتی پھرتی بہاریں ہر طرف بہر عطا
دل ربا و دل فدا اُن ہواؤں پر نثار

اللہ اللہ چہرہ و الشمس میں ہیں دو قمر
عرش بھی طالب ہے جن کا ان نگاہوں پر نثار

چاند وہ تلوں سے جس کے جھڑتے ہیں ماہ و نجوم
ہے ہلالِ آسماں ایسے ستاروں پر نثار

جذبہ عشق نبی تم دیکھ لو یرموک میں
خود شہادت دوڑ کر ہوتی ہے یاروں پرنثار

ان کے دشمن کا لہو مرغوب ہے ہم کو بہت
خالدِ سیفِ خدا تیرے جوابوں پر نثار

دشمنانِ مصطفے پر حملہ آور ہیں زبیر
حملۂ شیرِ خدا پر عشق والوں پر نثار

اُن کے آگے حضرتِ حمزہ کی وہ جانبازیاں
تیرے ہیں شیر ببر شیرانہ حملوں پر نثار

پاک جانیں بیچ کر جنت دلائی ہے ہمیں
دافعِ کرب و بلا حسنین زادوں پر نثار

مثلِ کشکولِ فقیراں پھر رہے تھے دربدر
مل گئی منزل ہوئے جب صحرا نشینوں پر نثار

سوئے جنت چل دیئے فاراں سبب بتلا ذرا
ہوچلے ہم تو رضا کے پیارے نغموں پر نثار

Share this article
Shareable URL
Prev Post

عشق والے ہیں ہم بس رضا چاہئے

Next Post

میرے آقا نے جو طیبہ میں بلایا ہوتا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Read next