تضمین برکلام امام اہلسنت اعلی حضرت قدس سرہ
دیدار رب تجھے ہوا تیری الگ ہی شان ہے
پہونچے مکاں سے لامکاں اور لگا اک آن ہے
نکلی تھی دیکھنے کو حد حیران اب یہ جان ہے
عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے
جان مراد اب کدھر ہائے تیرا مکان ہے
کب سے طلب میں گشت ہے کب تک کرنگے انتظار
عاصی ہیں، ہیں تو تیرے ہی گرچہ ہیں ہم گناہگار
ان کا کرم جو ہو کبھی ہم بھی لگائیں یہ پکار
پیشِ نظر وہ نو بہار سجدے کو دل ہے بے قرار
روکئے سرکو روکئے ہاں یہی امتحان ہے
رفعت میں ان کی حد ہے کیا ہم کو بتاؤ تو رضا
حیراں ہوں میں تو خود رضا کیا کیا کہوں تجھے شہا
یہ تو ہے صیغِ راز ہی ضد ہے تجھے تو سن ذرا
فرش پہ جاکے مرغ عقل تھک کے گرا غش آگیا
اور ابھی منزلوں پر ے پہلا ہی آستان ہے
پھرتی نسیم سحر ہے کس کی طلب ہیں گام گام
دریا کو جستجو ہے کیا کیوں پھر رہا ہےصبح و شام
تیری ہی فکر میں ہیں گم تیرا ہی ذکر اور نام
عرش پہ تازہ چھیڑ چھاڑ فرش پہ طرفہ دھوم دھام
کان جدھر لگائے تیری ہی داستاں ہے
دنیا کا حشر کا تجھے کیا کیا فاران خوف تھا
قبر ہے پل صراط بھی اعمال سے بھی ڈر ہوا
پھر جو اَنَا لَھَا سنا دل جھوم کر یہ بول اٹھا
خوف نہ رکھ رضا ذرا تو تو ہے عبدِ مصطفےٰ
تیرے لئے امان ہے تیرے لئے امان ہے