سلام شوق نسیم بہار کہہ دینا
مرا حضور سے سب حال زار کہہ دینا
سجودِ شوق کی اک آرزو ہے مدت سے
تڑپ رہا ہے دل بے قرار کہہ دینا
دئے ہیں سوزشِ غم نے وہ داغ سینے پر
تپک رہا ہے دلِ داغ دار کہہ دینا
جو دھجیاں ہیں گریبانِ زیست کی تن پر
ہوا ہی چاہتی ہیں تار تار کہہ دینا
ہمیں ملے جو اجازت تو سر کریں قرباں
حضور اب نہیں اٹھتا یہ بار کہہ دینا
یہ عرض کرنا کہ تنہا نہیں خلیؔل ملول
ہیں خادم آپ کے سب بے قرار کہہ دینا
وہ شہسوار کہ جس نے پہاڑ روندے تھے
پڑا ہوا ہے سرِرہ گزار کہہ دینا
وہ گلعذار کہ پھولوں سے کھیلتا تھا کبھی
وہ دشمنوں کے گلے کا ہے ہار کہہ دینا
وہ عندلیب کہ تھی جس کی لحن داؤدی
بلادِ غم کا ہوا ہے شکار کہہ دینا
وہ تاجدار کہ تھا میرِ کاروانِ جہاں
بھٹک رہا ہے برنگِ غبار کہہ دینا
وہ نوبہار کہ جس سے بہارِ عالم تھی
اب اُس پہ چھائی خزاں کی بہار کہہ دینا
وہ نامدار کہ جس کی پکار تھی سب میں
ہے آج سب کی نگاہوں میں خوار کہہ دینا
وہ گلستان میں عنادل کے چہچہے نہ رہے
اجڑ چکا چمن روزگار کہہ دینا
نہ اب وہ شوکت و حشمت نہ دبدبہ اپنا
نہ اب وہ شان نہ عز و وقار کہہ دینا
نہ خیر خواہ کوئی ہے نہ ہمنوا کوئی
نہ کوئی مونس و ہمدم نہ یار کہہ دینا
نہ یہ کہ ہم سے کدورت ہے دشمنوں کو فقط
ہے دوستوں کے بھی دل میں بخار کہہ دینا
غرض کہ حال وہ ہے جیسے زیرپا آتش
جگر ہے زخمی تو سینہ فگار کہہ دینا
ہے مختصر کہ یہ رودادِ غم، سنا دینا
غرض کہ جیسے ہیں لیل و نہا کہہ دینا
یہ روکے کہنا کہ سرکار کی دہائی ہے
کہ ایک دل میں ہیں ناسور ہزار کہہ دینا
تمہیں سے آس لگائی ہے غم کے ماروں نے
تمہیں سنو گے ہماری پکار کہہ دینا
تمھاری ایک نگاہِ کرم میں سب کچھ ہے
تمہیں وہ حق نے دیا اختیار کہہ دینا
ادھر تو نامۂ اعمال میں نہیں نیکی
اُدھر ہے سر پہ گناہوں کا بار کہہ دینا
دکھانے آئے ہیں بس زخم دل تمھارے حضورﷺ
وگرنہ تم پہ ہے سب آشکار کہہ دینا
حضورﷺ آپ جو گستاخیاں معاف کریں
تو اذن چاہتے ہیں گُنْہَ گار کہہ دینا
ملے اجازتِ رخصت تو چوم لینا زمیں
سلامِ شوق بھی ہاں بار بار کہہ دینا
خلیؔل زار کی جانب سے پھر ہزار سلام
بڑے ادب سے بصد انکسار کہہ دینا