صرف اتنا ہی نہیں غم سے رہائی مل جائے

صرف اتنا ہی نہیں غم سے رہائی مل جائے
وہ جو مل جائیں تو پھر ساری خدائی مل جائے


میں یہ سمجھوں گا مجھے دولتِ کونین ملی
راہ طیبہ کی اگر آبلہ پائی مل جائے


دور رکھنا ہو تو پھر جذب اویسی دے دو
تاکہ مجھ کو بھی تو کچھ کیف جدائی مل جائے


عرش بھی سمجھے ہوئی اس کو بھی معراج نصیب
ان کے دیوانے کے دل تک جو رسائی مل جائے


ہو عطا ہم کو بھی سرکار عبادت کا شعور
ہم کو بھی ذائقہ ناصیہ سائی مل جائے


اللہ اللہ رے اس عارض والشّمس کا نور
جس پہ پڑجائے اسے دل کی صفائی مل جائے


جس کو سہنا نہ پڑے پھر الم ہجر و فراق
اخؔتر خستہ جگر کو وہ رسائی مل جائے

Share this article
Shareable URL
Prev Post

روشن زمیں ہوئی تو حسیں آسماں ہوا

Next Post

صبا بصد شان دلربائی ثنائے رب گنگنا رہی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Read next