غمِ دنیا سے فارغ زندگی محسوس ہوتی ہے

نور افشاں ہے مرا دیدۂ تر تو دیکھو
ظُلمتُوں میں بھی نمایاں ہے سحر تو دیکھو
ان کی الفت ہے تو سب کچھ ہے مرے دامن میں
کتنا پیارا ہے مرا زاد ِ سفر تو دیکھو

غم ِ دنیا سے فارغ زندگی محسوس ہوتی ہے

محمد کی یہ بندہ پروری محسوس ہوتی ہے

مرے سرکار کی نسبت کا یہ فیضان تو دیکھو

مری مستی مجھے اب سر مدی محسوس ہوتی ہے

غم ِ عشق نبی کی بہاروں کو خدا رکھے

مجھے جنت بداماں زندگی محسوس ہوتی ہے

جمالِ گنبدِ خضریٰ سے جب بھی لو لگاتا ہوں

مجھے تاریکیوں میں روشنی محسوس ہوتی ہے

محبت میں اگر ہو پختگی ایمان کامل ہو

تو پھر سرکار سے وابستگی محسوس ہوتی ہے

درود ان پر سلام ان پر وہ جب بھی یاد آتے ہیں

یہ ہستی کیف میں ڈوبی ہوئی محسوس ہوتی ہے

چھپا لیتے ہیں سرکار ِ مدینہ اپنے دامن میں

خطاؤں پر اگر شرمندگی محسوس ہوتی ہے

جو موجِ زندگی منسوب ہے سرکار کے در سے

مجھے تو بندگی ہی بندگی محسوس ہوتی ہے

بھلا کیا کم ہے یہ اکرام یادِ سرور دیں کا

مدینے میں مسلسل حاضری محسوس ہوتی ہے

جنہیں دنیا نے ٹھکرایا وہ پلتے ہیں مدینے میں

یہ ایسی بات ہے جو واقعی محسوس ہوتی ہے

کہاں تاخیر ہوتی ہے کرم میں ان کی جانب سے

مرے سوزِ محبت میں کمی محسوس ہوتی ہے

نبی کا نام بھی کیا نام ہے صلّ ِ علیٰ خاؔلد

دو عالم میں اسی کی روشنی محسوس ہوتی ہے

Share this article
Shareable URL
Prev Post

مراد مل گئ کوئ صدا لگا نہ سکے

Next Post

اگر حبّ نبی کے جام چھلکائے نہیں جاتے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Read next