قرآں سب کو سکھاتے یہ ہیں
حق کی بات بتاتے یہ ہیں
خالقِ کل کے فرماں پڑھ کر
عقل و خرد چمکاتے یہ ہیں
زینتِ خِلقت ، باعثِ خَلقت
کیا کیا عزت پاتے یہ ہیں
نورِ علم سے روشن سینہ
زنگِ جہل مٹاتے یہ ہیں
آؤ! آؤ! قرآں دیکھیں
رُتبے کیا کیا پاتے یہ ہیں
سارے جہانوں کی ہیں رحمت
آیت آپ سناتے یہ ہیں
لا فخرَ لا فخرَ کہہ کر
رتبے خود ہی بتاتے یہ ہیں
ثانی اِن کا کوئی نہیں ہے
خود ہی تو فرماتے یہ ہیں
کوئی اِن سا کیسے ہوگا
خود ہی تو بتلاتے یہ ہیں
مَایَنْطِقْ کے عین مطابق
منہ سے جو فرماتے یہ ہیں
اِن کی باتیں حکمت ، دانش
اہلِ نظر فرماتے یہ ہیں
بدر کو دیکھو! دیکھو! اُحُد کو
کیسی شان دکھاتے یہ ہیں
خندق میں وہ ضربیں اِن کی
کیسا رنگ جماتے یہ ہیں
شعب ابی طالب میں لیکن
اور عمل فرماتے یہ ہیں
طائف کے اُس موقع پر بھی
ابر کرم برساتے یہ ہیں
غم کے ماروں ، روتے ہوؤں کو
کوئی دم میں ہنساتے یہ ہیں
لطف و کرم کی بارش کر کے
جلتی آگ بجھاتے یہ ہیں
چشم عطا سے ، عینِ سخا سے
پیاسوں کو پلواتے یہ ہیں
ربّ ہے مالک ، یہ بھی مالک
دین اُس کی ہے، دِلاتے یہ ہیں
اعلیٰ عالی ، والا ، والی
کیا کیا عزت پاتے یہ ہیں
افضل امثل اکمل اجمل
کیا کچھ ہی کہلاتے یہ ہیں
ذکرِ معراج
عرش کی جانب جاتے یہ ہیں
فرش کی جانب آتے یہ ہیں
اللہ اللہ! اِن کی رفعت
’’عرش‘‘ کی جانب جاتے یہ ہیں
اللہ اللہ! اِن کی اُلفت
’’فرش‘‘ کی جانب آتے یہ ہیں
ربّ کی جانب ، خَلق کی جانب
’’جاتے یہ ہیں ، آتے یہ ہیں‘‘
کوئی دم میں ،چشم زدن میں
’’جاتے یہ ہیں ، آتے یہ ہیں‘‘
سیر زمیں میں ، سیر فلک میں
جلوے خوب دکھاتے یہ ہیں
نور براق پہ جلوہ کر کے
اقصیٰ میں پھر جاتے یہ ہیں
اقصیٰ سے پھر عرشِ عُلیٰ تک
کیا کیا رفعت پاتے یہ ہیں
جھلمل جھلمل سارا رستہ
کیسی دھوم مچاتے یہ ہیں
دیکھو! دیکھو! دیکھو! دیکھو!
’’نوری‘‘ کہتے آتے یہ ہیں
کیف میں ڈوبے ہیں کرّوبی
کیسا جشن مناتے یہ ہیں
کر کر کے اظہارِ مسرت
نور کے نغمے گاتے یہ ہیں
روحِ امیں ہیں شہ کے ہمدم
سدرہ پہ رک جاتے یہ ہیں
اُن کو آگے بار نہیں ہے
عرش پہ لیکن جاتے یہ ہیں
قصرِ دَنا میں رونق افزا
کیا کیا رفعت پاتے یہ ہیں
سیر فلک میں عقلیں حیراں
کیسے جاتے ، آتے یہ ہیں
منکر جو معراج کے ہیں سب
جاہل ہی کہلاتے یہ ہیں
’’اُن‘‘ کی عظمت کے ہیں منکر
جن کا صدقہ کھاتے یہ ہیں
عقل سے اِن کا رشتہ کیسا
جہل پہ بس اتراتے یہ ہیں
واحدؔ اِن کی باتیں چھوڑو!
پھیکی دھن میں گاتے یہ ہیں
دیس کا پوچھے کوئی اِن سے
جھنجھوٹی بتلاتے یہ ہیں
راگ پہاڑی کوئی چھیڑے
مالسری سنواتے یہ ہیں
سا نی دھا پا ما گا رے سا
الٹی سرگم گاتے یہ ہیں
آروہی امروہی کیا ہے
الٹی چال چلاتے یہ ہیں
کومل تیور یہ کیا جانیں
لہرا خاک لگاتے یہ ہیں
راگ بہت ہیں برتاوے کے
اِن کو پر کب آتے یہ ہیں
اِن کی ہر ہر ٹھاٹھ الگ ہے
اپنے راگ بناتے یہ ہیں
اپنے سروں کے آپ ہیں موجد
فیثا کو شرماتے یہ ہیں
چھوڑو! ان کا ذکر اب چھوڑو!
ویسے بھی گھبراتے یہ ہیں
جاؤ! اہل دل سے پوچھو!
نکتے خاص بتاتے یہ ہیں
اہلِ ذوق سے جا کر سن لو!
جوشش گرمی لاتے یہ ہیں
حل ہوتے ہیں اِن سے عقدے
الجھن کو سلجھاتے ہیں
وہ کہتے ہیں ، لکھتے ہیں وہ
سب کو وہ سمجھاتے ’’یہ‘‘ ہیں
معجزے شہ کے عقل سے بالا
عقل میں کیسے آتے یہ ہیں
سیر فلک بھی معجزہ اعلیٰ
’’جاتے یہ ہیں ، آتے یہ ہیں‘‘
قصیدہ نگار: ابوالحسن واحد رضوی