معمور تجلّی ہے مرے دل کا نگینہ

معمور تجلی ہے مرے دل کا نگینہ

اللہ بنائے تو یہ بن جائے مدینہ

اس میں نہ عدوات ہے نہ ظلمت ہے نہ کینہ

روشن ہے غم عشق محمد سے جوسینہ

پینے کا مزا جب ہے کہ ہو ایسا قرینہ،

بغداد کا ساغر ہوتو اجمیر کی مینا

ہوجاتی ہے طے منزل عرفان خدا بھی

مل جائے اگر الفت ِ سرکارِ مدینہ

ہو پیش نظر گنبدِ خضرا کا نظارا

اللہ دکھائے ہمیں وہ دن وہ مہینہ

کونین کی دولت بھی نہیں جس کے برابر

عشق شہ کونین ہے ایسا ہی خزینہ

پھر دیکھے کوئی سرور عالم کی عطائیں

آجائے اگر ان کی گدائی کا قرینہ

سرکار اسے دامن رحمت میں چھپا لو

جائے تو کہاں جائے گنہ گار کمینہ

کام آتا ہے سرکار دو عالم کا سہار

جب گردش حالات میں گھرتا ہے سفینہ

طیبہ کی تجلی سے ہیں معمور دو عالم

سرکار دو عالم ہیں جہاں بھی ہے مدینہ

مٹتے ہیں نہیں سرور عالم کے فدائی

ہو عشق تو مٹنا ہی حقیقت میں ہے جینا

اٹھ جائے نقاب رُخ ِ پُر نور جو خاؔلد

ہر حسن خود آگاہ کو آجائے پسینہ

Share this article
Shareable URL
Prev Post

کر اہتمام بھی ایماں کی روشنی کے لیے

Next Post

پیکرِ نور کی تنویر کے صدقے جاؤں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Read next