میں بے نیاز ہوں دنیا کے ہر خزانے سے

میں بے نیاز ہوں دنیا کے ہر خزانے سے

ملی ہے بھیک محمد کے آستانے سے

بہت ہی سونی تھی، بے کیف تھی خدا کی قسم

سجی ہےمحفلِ کونین تیرے آنے سے

مِلاہے منزل قوسین کا نشاں مجھ کو

تمہارے نقش کفِ پا پہ سر جھکانے سے

پسِ فنا جو ترے در کی خاک ہوجائے

مریض ہجر کی مٹی لگے ٹِھکانے سے

گدائے بے سروساماں ہوں آل کا صدقہ

مجھے بھی دیجئے سرکار کچھ خزانے سے

کناہ گار ہوں، نسبت مگر منوّر ہے

سنور گیا ہوں ترے در پہ سر جھکانے سے

ہمارے سر پہ ہے دامانِ رحمتِ عالم

نہ مِٹ سکیں گے زمانے ترے مٹانے سے

زہے نصیب بھکاری اُسی کا ہے خاؔلد

ملی ہے بھیک دو عالم کو جس گھرانے سے

Share this article
Shareable URL
Prev Post

مٹتے ہیں دو عالم کے آزار مدینے میں

Next Post

سیّدی یا حبیبی مولائ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Read next