وہ ماہ عرب آج کعبہ میں چمکا
جو مالک ہے سارے عرب و عجم کا
نہ ہوتا اگر وہ تو کچھ بھی نہ ہوتا
یہ جلوہ ہے عالم میں سب اس کے دم کا
ہوا اس طرف رحمتِ حق کا دورہ
جدھر ہوگیا ایک پھیرا کرم کا
میں اس عدل و انصاف و رحمت کے قرباں
مٹا نام عالم سے ظلم و ستم کا
کیا سارے عالم کو سرشار و حدت
اٹھا دور دنیا سے کفرو صنم کا
ملی ہم کو اسلام و ایماں کی دولت
یہ ہے فیض سب تیرے جو داتم کا
ہے کافی ہمارے لیے دو جہاں میں
اشارہ فقط تیری چشم کرم کا
عرب والے آقا کی دی جب دوہائی
اسی دم ہوا رنگ فق ہر الم کا
یہاں پر لحد میں قیامت میں پل پر
سہارا ہے بس اک شفیع الامم کا
عرب کے قمر مجھ کو صورت دکھا دو
میں دنیا میں مہمان ہوں کوئی دم کا
خدا نے انہیں لا مکاں میں بلایا
بیاں کس سے ہو ان کے جاہ ستم کا
جو رضواں مدینے کو دیکھیں تو کہہ دیں
کہ نقشہ ہے بالکل یہ باغ ارم کا
ترے علم و سمع و بصیرت کا منکر
وہابی ہے کمبخت اندھا جنم کا
کہے شرک جس کو اسی میں ہو شامل
ادھر میں ہے کیا ٹھیک تیرے دھرم کا
جمیل اپنے آقا کا مدحت سرا ہے
کرم ہے رضا کی نگاہِ کرم کا
قبالۂ بخشش