کیوں کر نہ ہو مکے سے سوا شان مدینہ
وہ جب کہ ہوا مسکن سلطان مدینہ
مکے کو شرف ہے تو مدینے کے سبب سے
اس واسطے مکہ بھی ہے قربان مدینہ
ہوتا ہے فلک کا سرِ تسلیم یہاں خم
اللہ رے بلندی تری ایوان مدینہ
آتے ہیں سر عجز جھکائے ہوائے لاکھوں
شاہانِ جہاں پیش گدایان مدینہ
بلبل کبھی بھولے سے نہ لے نام چمن کا
دیکھاہی نہیں اس نے گلستان مدینہ
لاکھوں نے لگگائے ہیں ترے کوچہ میں بستر
تھوڑی سی جگہ ہم کو بھی اے جان مدینہ
پہنچادے تو محبوب کے درپر مجھے یا رب
لے جاؤں نہ د نیا سے میں ارمانِ مدینہ
سمجھوں گا ہوئی عید مبارک مجھے جس دم
ہوجائے گا یہ سر مرا قربان مدینہ
اترا تی ہے کیوں بادصبا تو مرے آگے
دیکھیں گے کبھی ہم بھی گلستانِ مدینہ
سردے کے غلامان نبی راہ خدا میں
آرام سے سوئے تہِ دامان مدینہ
شاہان جہاں کانپتے ہیں نام سے تیرے
اللہ یہ صولت تری سلطان مدینہ
کیا وصف کروں خوبیِٔ اخلاق کا ان کے
بے مثل ہے دنیا میں ہر انسان مدینہ
سرسبز کسی کی بھی نہ ہو کشت تمنا
برسے نہ اگر خلق پہ نیسان مدینہ
مخلوق خداوند ہے سب زیر حکومت
ہے حاکم کونین سلیمان مدینہ
آرام سے ٹھہراتا ہے زوّار نبی کو
گویا کہ یہ چھوٹا ساہےا حسان ِمدینہ
پیش آتے ہیں رحمت کے فرشتے بتواضع
اللہ کے مہمان ہیں مہمان مدینہ
ہوجائے جو سرکار کی رحمت کا اشارہ
سگ اپنا بنا ئیں مجھے دربان مدینہ
مرنے پہ بھی چھوڑیں گے نہ محبوب کا کوچہ
عشاق کی جنت ہے بیابان مدینہ
گھبرائیں گے سب مہر قیامت کی تپش سے
بے خوف مگر ہوں گے گدایان مدینہ
سبطین کی جب حشر میں آئے گی سواری
غل ہوگا کہ وہ آتے ہیں خوبان مدینہ
ہے عرض جمیل رضوی کا یہ خلاصہ
لاشہ ہو مرا اور بیابان مدینہ
عشاق یہ کہتے ہیں جمیل رضوی کو
ہے نغمہ سرا بلبل بستان مدینہ
قبالۂ بخشش