ہوتے ہی قیدِ تن سے رہا اپنے گھر گئی
مہجور روح تا درِ خیر البشر گئی
بارانِ اشکِ غم میں نہا کر سنور گئی
کچھ اور بھی عروسِ تمنّا نِکھر گئی
اللہ ری بہشتِ مدینہ تِری بہار
ہر گُل جناں بکف تھا جہاں تک نظر گئی
فرمایا جو کلام وہ وحیِ خدا ہوا
کی آپ نے جو بات وہ دل میں اُتر گئی
طیبہ کی سمت لے کے درودوں کے ہار پھول
دلہن بنی ہوئی مِری آہِ سحر گئی
کھولی جو زلف آپ نے گلشن مہک اٹھے
شانہ کیا تو کاکلِ ہستی سنور گئی
اختؔر ہے میرے ہاتھ میں دامانِ مصطفیٰﷺ
دنیا سنور گئی مِری عقبیٰ سنور گئی