ہے تم سے عالم پر ضیا ماہِ عجم مہر عرب
دے دو مرے دل کو جلا ماہِ عجم مہر عرب
دونوں جہاں میں آپ ہی کے نور کی ہے روشنی
دنیا و عقبیٰ میں شہا ماہِ عجم مہر عرب
کب ہوتے یہ شام و سحر کب ہوتے یہ شمس و قمر
جلوہ نہ ہوتا گر ترا ماہِ عجم مہر عرب
ہے روسیہ مجھ کو کیا آقا مرے اعمال نے
کردو اجالا منہ مرا ماہِ عجم مہر عرب
خورشید تاباں بھیک کو آیا تری سرکار سے
ہے نور سے کا سہ بھرا ماہِ عجم مہر عرب
خورشید کے سر آپ کے در کی گدائی سے رہا
سہرا شہا انوار کا ماہ عجم عرب
کاسہ لیسی سے ترے دربار کی مہتاب بھی
کیسا منور ہوگیا ماہِ عجم مہر عرب
ہیں یہ زمین و آسماں منگتا اسی سرکار نے
ہے ان کی آنکھوں کی ضیا ماہِ عجم مہر عرب
یوں بھیک لیتا ہے دو وقتہ آسماں انوار کی
صبح و مسا ہے جبہ سا ماہ عجم مہر عرب
اس جبہ سائی کے سبب شب کو اسی سرکار نے
انعام میں ٹیکا دیا ماہِ عجم مہر عرب
اور صبح کو سرکار سے اس کو ملا نوری صلہ
عمدہ سا جھومر پر ضیا ماہِ عجم مہر عرب
جب تم نہ تھے کچھ بھی نہ تھا جب تم ہوئے سب کچھ ہوا
ہے سب میں جلوہ آپ کا ماہِ عجم مہر عرب
اک ظلمت عصیاں شہا اس پر اندھیرا قبر کا
کردے ضیا بدر الدجیٰ ماہِ عجم مہر عرب
بر تو شوداز نور رب باران نوری روز و شب
ہو تا ابد یہ سلسلہ ماہِ عجم مہر عرب
ہو مرشدوں پر نور جاں بارش تمہارے نور کی
اور ان سے پائے یہ گدا ماہِ عجم مہر عرب
بے شک ہے عاصی کے لئے ناری صلہ لیکن شہا
نورؔی کو دو نوری جزا ماہ عجم مہر عرب
سامانِ بخشش