یہ مانا[1]؎ جان اِک دن قیدِ آب و گِل سے نکلے گی
ولائے مصطفیٰﷺ لیکن نہ میرے دل سے نکلے گی
الہٰی کس قدر محبوب حسرت دل سے نکلے گی
جو دیدارِ جمالِ رحمتِ کامِل سے نکلے گی
خدا چاہے تو پائے گی جگہ آغوشِ رحمت میں
عروسِ روح جس دن بھی حریمِ دِل سے نکلے گی
عطائے بے طلب جب شان ہے تیری کریمی کی
طلب کی پھر صدا کیسے لبِ سائل سے نکلے گی
تمہاری یاد کے قربان کتنی کیف آور ہے
نہ اب تک دِل سے نکلی ہے نہ کل تک دل سے نکلے گی
سواری رحمتِ کونینﷺ کی میدان محشر میں
لٹاتی رحمتیں ہر راہ پر منزل سے نکلے گی
نظر سے تا حریمِ قدس ہے اِک نور کا عالَم
کہ لیلائے تمنّا پردۂ محمل سے نکلے گی
دمِ آخر جو ہوں گے سامنے معراج کے دولہاﷺ
دلہن بن کر مِری جاں جسمِ آب و گِل سے نکلے گی
رخ و زلفِ نبیﷺ کا ہے تصوّر رات دن اختؔر
نہ دن مشکل سے نکلا ہے نہ شب مشکل سے نکلے گی
[1]اس مبارک نعت کے متعلق لسان الحسان علامہ ضیاء القادری کا بشارت آمیز، ایمان افروز مکتوبِ گرامی حقر نے ’’حرفِ آغاز‘‘ کے تحت پیش کیا ہے اسے سامنے رکھتے ہوئے قارئینِ کرام پھر یہ نعت شریف پڑھیں۔ (اختر شاہجہانپوری)