مدینے جانے والے دردمندوں کی صدا سن لے
غریبوں کی حکایت بے کسوں کی التجا سن لے
پکڑ کر روضہ اقدس کی جالی چوم کر کہنا
دل فرقت زدہ کی اے حبیب کبریاﷺ سن لے
عنادل مائل شور وفغاں ہیں گل ہیں پژمردہ
خدارا جور دوراں اے زمانے کے شہا سن لے
تمھارے ہجر میں پردرد میری زندگانی ہے
براہیمی چمن کے عندلیب خوشنوا سن لے
گھرا کب سے پڑا ہوں بحر عصیاں کے تھپیڑوں میں
شکستہ ناؤ ہے ناساز رفتار ہوا سن لے
ہے بادِ صرصر الحاد کی یورش بہر جانب
پڑے ہیں رہزن ایماں بشکل رہنما سن لے
وہ مسلم حرکت غمزہ تھی جن کی قہر ربانی
وہ سہتے ہیں زمانے کی ہر اک جورو جفا سن لے
وہ مسلم مارتا تھا ٹھوکریں جو تخت شاہی پر
وہ مارا مارا پھرتا ہے مثال بے نو اسن لے
نگاہِ لطف ہو حال پریشان مسلماں پر
طفیل گنبدِ خضریٰ ہماری التجا سن لے
یہی اک آرزو ہے میرا مدفن ہو مدینے میں
خلیل ملتجیٰ سن لے مسیحی مدعا سن لے
چمک پاتے ہیں سب تجھ سے مری قسمت بھی چمکادے
ہمارے مخزن رحم و کرم کان سخا سن لے
یہی ہے مختصر فریاد قلب اخؔتر محزوں
مرے مشکل کشا سن لے مرے حاجت روا سن لے